دھوپ نکلی تو بتائے گی ہے سایہ کتنا
دھوپ نکلی تو بتائے گی ہے سایہ کتنا
اپنا ہی جسم ہے اپنے سے پرایا کتنا
خود شناسی کے اندھیروں کی گھنی چھاؤں تلے
میرے آسیب نے خود مجھ کو ڈرایا کتنا
اس سے بھی ہو نہ سکا اپنی جراحت کا علاج
پیار بھی اس نے کیا دل سے لگایا کتنا
ہوں وہ سرمایہ جو لٹنے پہ تہی دست نہیں
وقت نے میری اداسی کو چرایا کتنا
خود سے بچ کر جو مرے دل میں اتر آیا تھا
اس پرندے کو ہواؤں نے ڈرایا کتنا
مقصد اہل جنوں فاصلہ ور دوش رہا
آگہی نے رہ منزل کو گھٹایا کتنا
آہوئے فکر رمیدہ تری خاطر میں نے
دشت بے سایہ میں لفظوں کو سجایا کتنا
تب کہیں جا کے کھلا خامۂ رنگیں کا گلاب
اپنے ہی خون میں اجملؔ ہے نہایا کتنا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.