دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا
دھوپ رخصت ہوئی شام آئی ستارا چمکا
گرد جب بیٹھ گئی نام تمہارا چمکا
ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا تھا مجھے
تم نے جب مجھ کو پکارا تو کنارا چمکا
مسکراتی ہوئی آنکھوں سے ملا اذن سفر
شہر سے دور نہ جانے کا اشارا چمکا
ایک تحریر کہ جو صاف پڑھی بھی نہ گئی
مگر اک رنگ مرے رخ پہ دوبارا چمکا
آج اک خواب نے پھر ذہن میں انگڑائی لی
اور طوفان میں تنکے کا سہارا چمکا
سازگار آنے لگی تھی ہمیں خلوت لیکن
جی میں کیا آئی کہ پھر ذوق نظارا چمکا
جھلملانے لگیں محفل میں چراغوں کی لویں
رخصت اے ہم نفسو صبح کا تارا چمکا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.