دھیان کا راہی رک رک کر پیچھے تکتا ہے
دھیان کا راہی رک رک کر پیچھے تکتا ہے
بیتے لمحے یاد آتے ہیں دل روتا ہے
بند دریچے صف بستہ گم سم دیواریں
شہر کی ویرانی سے مجھ کو خوف آتا ہے
جانے لوگوں کی آوازیں کیا کہتی ہیں
جانے ہر جانب کیوں گہرا سناٹا ہے
کہتے ہیں آ آ کے مجھ کو اونٹوں والے
صحرا میں بجلی چمکی ہے مینہ برسا ہے
بڑھتے ہی جاتے ہیں دیواروں کے سائے
دھوپ کا سندر جوبن اب ڈھلتا جاتا ہے
پہروں بیٹھا ان کی باتوں کو سنتا ہوں
کاغذ کی تصویروں سے جی خوش ہوتا ہے
ہمدم ایسے لوگ کہاں سے ڈھونڈ کے لاؤں
جن کی باتوں سے دل کا غنچہ کھلتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.