دی ہے اگر حیات تمنا کئے بغیر
دی ہے اگر حیات تمنا کئے بغیر
اب موت بھی عطا ہو تقاضا کئے بغیر
بازار زندگی ہے فقط گھومنے کی جا
کچھ بھی یہاں ملے گا نہ سودا کئے بغیر
میں بھی انا پسند ہوں لیکن کروں تو کیا
دل مانتا نہیں اسے سجدہ کئے بغیر
جلوہ نمود جسم ہے اور جسم ہے حجاب
پردے میں کوئی رہتا ہے پردہ کئے بغیر
منسوب کس سے ہوتی پھر آخر متاع دل
میں تم کو چھوڑ دیتا جو اپنا کئے بغیر
یہ کارنامہ ہے دل خود احتساب کا
میں پاکباز ہو گیا توبہ کئے بغیر
فریاد کس سے کیجئے اس چارہ ساز کی
جو چھوڑ دے مریض کو اچھا کئے بغیر
چپ رہ کے مطمئن ہیں نہیں جانتے سروشؔ
کچھ راز فاش ہوتے ہیں چرچا کئے بغیر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.