دیدار ماہتاب کا شب بھر نہیں ہوا
روشن مرے نصیب کا اختر نہیں ہوا
ہر دم وہی ہوا نہ تھی امید جس کی کچھ
ہونا جو لازمی تھا وہ اکثر نہیں ہوا
کیا فائدہ چراغ جلانے سے روز روز
کردار ہی مرا جو منور نہیں ہوا
اشعار کی کچھ آج بھی آمد ہے ہو رہی
یہ ذہن میرا آج بھی بنجر نہیں ہوا
برسوں سے کتنے دریا ہیں اس میں سما رہے
میٹھا مگر ابھی بھی سمندر نہیں ہوا
کوشش تو اس نے خوب کی جی جان سے مگر
پنجوں کے بل بھی وہ میرے ہم سر نہیں ہوا
اے زندگی کہوں میں تجھے کیسے الوداع
تجھ سے ابھی حساب برابر نہیں ہوا
اگیاتؔ غم نہ کر ہیں اگر تجھ میں خامیاں
دنیا میں کوئی شخص بھی یکسر نہیں ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.