دیمک تیرے فراق کی کھاتی رہی مجھے
دیمک تیرے فراق کی کھاتی رہی مجھے
رہ رہ کے تیری یاد ستاتی رہی مجھے
میں دشت ہو گیا تھا اسے سوچ سوچ کر
وہ بھی سمجھ کے خاک اڑاتی رہی مجھے
اس کی طلب ہی سے میں گیا خودکشی کی سمت
جو زندگی کے گھونٹ پلاتی رہی مجھے
غرقاب ہو چکا تھا میں دریا کی کوکھ میں
آ آ کے کوئی موج اٹھاتی رہی مجھے
ورنہ تو سرد رات میں بجھ ہی گیا تھا میں
کوئی ہوائے تیز جلاتی رہی مجھے
وہ فکر مارکیز کی ریمیڈیوس تھی
خلوت کے سو سو سال جگاتی رہی مجھے
ہائے وہ تیری آگ سے بچنے کی کوششیں
کن آتشوں میں گھیر کے لاتی رہی مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.