دیوانے ہوئے صحرا میں پھرے یہ حال تمہارے غم نے کیا
دیوانے ہوئے صحرا میں پھرے یہ حال تمہارے غم نے کیا
افسوس مگر اس بات کا ہے کیا تم نے کیا کیا ہم نے کیا
جب بھڑکی ہے آتش داغ جگر سرد اس کو دیدۂ نم نے کیا
شاداب چمن میں پھولوں کو ہر شام و سحر شبنم نے کیا
اچھی ہوئی اب کہ بری یہ ہوئی ان باتوں کو خود ہی سمجھو
الزام ہمیں کیا دیتے ہو جو تم نے کہا وہ ہم نے کیا
تاریک ہوئی ساری دنیا کیا موت ہوئی مجھ بیکس کی
کم ایسے ہوئے ہیں شہید وفا غم جن کا اک عالم نے کیا
قسمت کی طرح یہ دل نہ پھرا کعبے سے بھی الٹے پاؤں پھرے
آنکھوں میں گلی وہ پھرنے لگی بے خود یہ طواف حرم نے کیا
کیا ایسی وفا پر ناز کروں جو باعث ہو رسوائی کی
یہ بات ہوئی مر جانے کی بد نام کسی کو ستم نے کیا
غربت میں تمہاری تربت پر رونے کو حفیظؔ آتا کوئی
اب شکر کرو آنسو تو پچھے چھڑکاؤ بھی ابر کرم نے کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.