دیوانے کی باتیں سن کر چونک پڑے فرزانے لوگ
دیوانے کی باتیں سن کر چونک پڑے فرزانے لوگ
مدت میں پہچانے لیکن پھر بھی کیا پہچانے لوگ
روز و شب تلخابۂ ہستی شام و سحر خوں نابۂ غم
امرت کہہ کر پی لیتے ہیں زہر بھرے پیمانے لوگ
دل کا یہ ویران کھنڈر پھر شہر طرب بن جائے گا
کتنے سندر سپنے دیکھا کرتے ہیں دیوانے لوگ
اب وہ آنکھ کہاں ہے جس پر ہوتی تھی تخلیق غزل
خواب ہوئیں وہ باتیں جن پر لکھتے تھے افسانے لوگ
وہ بچپن کے سنگی ساتھی وہ بھی فسردہ ہم بھی اداس
یوں ملتے ہیں رستہ چلتے جیسے ہوں بیگانے لوگ
ایک نظر ماحول پہ ڈالیں ماہرؔ ہم پھر غور کریں
مدت سے سنجیدہ کیوں ہیں آخر یہ دیوانے لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.