دل اے دل یہ طرز نہیں کچھ عشق کے عہدے داروں کی
دل اے دل یہ طرز نہیں کچھ عشق کے عہدے داروں کی
سنتے ہو مجبوروں کی اور کہتے ہو مختاروں کی
پھر موجوں سے چیخ سی اٹھی مجھ کو تو یہ دھوکا ہے
گئی رات بھی پتواروں سے خوب نبھی منجدھاروں کی
یاد دلا دی ہے سورج کے آس پاس اک بدلی نے
کالی قمیصوں کے سائے میں دھوپ سپید غراروں کی
پیپل کے پتوں کے سائے کب تک تمہیں سراہیں گے
ایک نہ اک دن قسمت جاگ اٹھے گی راہ گزاروں کی
اے گل دامن رشک گلستاں ہم سے ہمارا حال نہ پوچھ
صحن چمن کے ویرانوں میں صورت دیکھ بہاروں کی
اک بجھتی لکڑی سے اک شعلہ لہرایا ہے جس وقت
خانہ بدوشوں کے خیمے میں بات چھڑی مٹیاروں کی
تیرے ہجر میں جام نہ کھنکیں پتہ نہ کھڑکے آہ نہ ہو
کس دریا میں ڈوب مریں آوازیں چوکیداروں کی
اس بے رخ نے بے دردی سے راتوں راتوں رلوایا
درد کا حد سے بڑھ جانا ٹھہری جو دوا بیماروں کی
آؤ اک دو پل سستا لیں ماضی کی دیوار تلے
سیج بھی ہے نورس کلیوں کی برکھا بھی انگاروں کی
ایسے کہاں نصیب ہمارے بایاں انگ پھڑک اٹھے
کون خبر ہے دکھیا جاگ میں ہم پاپی دکھیاروں کی
ہم کو کسی سے گلا نہیں ہے جان گئے پہچان گئے
ویراں دلوں کے ویرانے ہیں دنیا دنیا داروں کی
ایک زمانہ گزرا ہم بھی تیرے شہر کے باسی تھے
آج بھی آنکھوں میں پھرتی ہے صورت تیرے دیاروں کی
گو قدموں سے جدا ہوئے وہ راہ گزاریں دیر ہوئی
لیکن دل پر جم سی گئی ہے دھول ان راہ گزاروں کی
خیر ان دنوں تو چاک گریبانوں کی عزت ہوتی تھی
آج تو خیر سے تیرے شہر میں عزت ہے دستاروں کی
اشکؔ مرے اشعار کے آتش پاروں سے دھیرے دھیرے
بستی بستی پھیل رہی ہے آنچ ان کے رخساروں کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.