دل آزردہ کو بہلائے ہوئے ہیں ہم لوگ
دل آزردہ کو بہلائے ہوئے ہیں ہم لوگ
کتنے خوابوں کی قسم کھائے ہوئے ہیں ہم لوگ
ایک عالم کے حریف ایک زمانے کے نقیب
جیسے تاریخ کے دہرائے ہوئے ہیں ہم لوگ
ایک مدت ہوئی ہم ڈھونڈھ رہے ہیں خود کو
اپنی آواز کے بھٹکائے ہوئے ہیں ہم لوگ
جس کے شعلوں سے نمو پائیں گے کچھ پھول نئے
آگ سینے میں وہ دہکائے ہوئے ہیں ہم لوگ
جن سے بیدار ہوا لذت آزار کا ذوق
چوٹیں ایسی بھی کئی کھائے ہوئے ہیں ہم لوگ
ایک گتھی جو سلجھ کر بھی نہ سلجھی زنہار
اس کو سلجھا کے بھی الجھائے ہوئے ہیں ہم لوگ
ہوش میں رہ کے بھی لازم ہے کہ مدہوش رہیں
راز آنکھوں کا تری پائے ہوئے ہیں ہم لوگ
گردش وقت کوئی اور ٹھکانا بتلا
محفل دوست سے اکتائے ہوئے ہیں ہم لوگ
آنچ آئی نہ کڑی دھوپ میں لیکن حرمتؔ
چاندنی راتوں کے سنو لائے ہوئے ہیں ہم لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.