دل بیتاب کا آنا ستم ہے
تڑپ کر پھر مچل جانا ستم ہے
مجھے سمجھا رہی ہے غیرت دل
وفا سے تیرا پھر جانا ستم ہے
وہ رہ کر چٹکیاں لیتے ہیں کیا کیا
ستم ہے دل میں بھی آنا ستم ہے
مری ناکامیاں یہ کہہ رہی ہیں
نقوش غم کا مٹ جانا ستم ہے
مٹی جاتی ہیں میری آرزوئیں
کسی کو راہ پر لانا ستم ہے
کتاب عشق کو کرتا ہوں میں جمع
ورق کا اب بکھر جانا ستم ہے
کہیں راز محبت کھل نہ جائے
زباں پر نام کا لانا ستم ہے
دم آخر ہوا مجھ کو یہ معلوم
فریب زندگی کھانا ستم ہے
مری غیرت کو کب ہے یہ گوارا
تصور میں ترا آنا ستم ہے
سمجھتا ہوں مآل آرزو کو
مگر اب تجھ کو سمجھانا ستم ہے
گریباں ہے گریباں دست وحشت
ترا حد سے گزر جانا ستم ہے
پھنسا کیوں میں فریب آرزو میں
ادا کے پھیر میں آنا ستم ہے
تمہیں نے دعوت نظارہ دی تھی
یکایک ہائے چھپ جانا ستم ہے
کبھی رقصاں تھیں جن آنکھوں میں الفت
ان آنکھوں کا بدل جانا ستم ہے
جفا جب حاصل الفت ہے اے دل
وفاؔ کے پھیر میں آنا ستم ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.