دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا
دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا
قریب رہ کے بھی جس نے ترا پتا نہ لیا
بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر
بحال ہوتے ہوئے ہم نے اک زمانہ لیا
کسی بھی حال میں پہنچے تو ہیں کنارے پر
یہی بہت ہے کہ احسان ناخدا نہ لیا
خیال آیا روانہ ہوئے سفر کے لیے
نہ ہم نے رخت ہی باندھا نہ آب و دانہ لیا
میں جی رہا ہوں مگر یاد رفتگاں کی طرح
مجھے گئے ہوئے لمحوں نے کیوں بلا نہ لیا
تمام عمر ہوا پھانکتے ہوئے گزری
رہے زمیں پہ مگر خاک کا مزا نہ لیا
ازل سے ہے وہی بے کیف روشنی اب تک
گلوں کا رنگ ستاروں نے کیوں اڑا نہ لیا
جو تھا عزیز اسی سے گریز کرتے رہے
گلی گلی میں پھرے اپنا راستہ نہ لیا
امید شعلہ نہیں آفتاب ہے شہزادؔ
چراغ تھا تو ہواؤں نے کیوں بجھا نہ لیا
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 143)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.