دل حزیں کو الم میں قرار بھی تو نہیں
دل حزیں کو الم میں قرار بھی تو نہیں
مزاج یار پہ کچھ اختیار بھی تو نہیں
ابھی سے دشت نوردی کی فکر کیوں دل کو
چمن میں آنے کو فصل بہار بھی تو نہیں
میں کیسے مان لوں اپنے کو جاں نثاروں میں
مری وفا کا تمہیں اعتبار بھی تو نہیں
ہمارا شکر تری نعمتوں کے آگے کیا
ترے کرم کا ہے کوئی شمار بھی تو نہیں
رہا یہ غنچۂ دل ناشگفتہ مثل خزاں
گرہ کشائے طبیعت بہار بھی تو نہیں
تمہارے وعدوں پہ اب کس طرح یقین آئے
وفا ہوا ہے کبھی ایک بار بھی تو نہیں
بسر کرے کوئی وحشی بھی دشت میں کیوں کر
کوئی درخت یہاں سایہ دار بھی تو نہیں
اب ان کی شان تغافل کا کیا گلہ کیجے
جب اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
ہو ثاقبؔ آپ کو اہل وطن سے شکوہ کیا
کہ خاکسار غریب الدیار بھی تو نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.