دل مضطر میں جلتی ایک حسرت اور رکھنی ہے
دل مضطر میں جلتی ایک حسرت اور رکھنی ہے
مجھے طاق جنوں میں اک محبت اور رکھنی ہے
گریباں چاک ہے گرچہ مجھے کچھ اور کرنا ہے
کہ اب ان وحشتوں میں ایک وحشت اور رکھنی ہے
خطیب وقت نے سکھلا دیا یہ اہل دنیا کو
خطابت اور رکھنی ہے عداوت اور رکھنی ہے
کوئی بھی واردات قلب و جاں ظاہر نہیں کرنی
مجھے اب انتقاماً اپنی حالت اور رکھنی ہے
طواف شہر جاناں سے اگر سجادؔ فرصت ہو
تھکے پیروں کے نیچے اک مسافت اور رکھنی ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 567)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.