دل مضطر پہ اب ان کی عنایت ہوتی جاتی ہے
دل مضطر پہ اب ان کی عنایت ہوتی جاتی ہے
کبھی تھی جس سے نفرت اس سے الفت ہوتی جاتی ہے
زمانہ ہو گیا ترک محبت کو مگر اب بھی
کسی کی یاد تسکین طبیعت ہوتی جاتی ہے
وہ میری عرض غم پر آج کچھ شرمائے جاتے ہیں
انہیں اپنی جفاؤں پر ندامت ہوتی جاتی ہے
تمہارے روٹھ جانے سے میں یوں محسوس کرتا ہوں
زمانہ بھر کو جیسے مجھ سے نفرت ہوتی جاتی ہے
وہ پہلی برہمی اب نالۂ غم پر نہیں ہوتی
غرور حسن کو ظاہر حقیقت ہوتی جاتی ہے
میں اپنی اولیں لغزش نہ بھولا ہوں نہ بھولوں گا
اسی کی یاد سے مجھ کو ندامت ہوتی جاتی ہے
مرے اس جذبۂ صادق کی کچھ تو قدر کر ظالم
تری بے گانگی مجھ پر قیامت ہوتی جاتی ہے
کوئی اے فکر اس دیوانگی کی داد کیا دے گا
شکایت کرتا جاتا ہوں ندامت ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.