دل حسن کے انداز سے مسحور بہت ہے
دل حسن کے انداز سے مسحور بہت ہے
آنکھ اس بت طناز کی مخمور بہت ہے
سنتے ہیں کہ ہے نزع میں دیدار کا وعدہ
دل موت کے اذکار سے مسرور بہت ہے
جلتی ہے زباں تذکرۂ شعلہ رخاں سے
دل شمع کی صورت مرا محروم بہت ہے
دنیا کی نگاہوں کا بجا خوف ہے اس کو
اظہار وفا کرنے میں مجبور بہت ہے
روکے نہیں رکتی ہیں تڑپتی ہوئی آہیں
دل ہجر میں اس شوخ کے رنجور بہت ہے
ہر سانس مزین ہے مری یاد سے اس کی
ہے دل سے قریں نظروں سے جو دور بہت ہے
ٹکڑے دل ناشاد کے اب جڑ نہیں سکتے
شیشہ اثر درد سے یہ چور بہت ہے
لب پر نہ شکایت ہو نہ آنکھوں سے گرے اشک
دشوار محبت کا یہ دستور بہت ہے
مل جاتا ہے منزل کا پتہ بھٹکے ہوؤں کو
ہر نقش قدم حسن کا پر نور بہت ہے
وہ مشق ستم شوق سے کرتے رہیں ہم پر
محبوب کی خاطر ہمیں منظور بہت ہے
محنت کا صلہ فاقہ و افلاس ہی پایا
تنگ آج کے زردار سے مزدور بہت ہے
شل ایسے ہوئے پاؤں اٹھائے نہیں جاتے
گو سامنے منزل ہے مگر دور بہت ہے
ہے ناز فضاؔ کو بھی بہت عشق پہ اپنے
گر حسن و نزاکت میں وہ مشہور بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.