دل اک پرندہ تھا آخر قفس میں ڈال گیا
دل اک پرندہ تھا آخر قفس میں ڈال گیا
جنون شوق اسے بھی ہوس میں ڈال گیا
بھگو گیا ہے پسینے سے سردیوں میں بدن
یہ کیسا موسم گل تھا امس میں ڈال گیا
ہوا تھا عشق لڑکپن میں جس سے وہ مجھ کو
رہ فراق پہ سولہ برس میں ڈال گیا
میں مانتا ہوں بہت فاصلے پہ تھا لیکن
وہ شخص خود کو مری دسترس میں ڈال گیا
بغل کی سیٹ پہ بیٹھا بھی تو نہیں تھا کوئی
دوپٹہ کون مرے منہ پہ بس میں ڈال گیا
اسی کا ورد ہے ہر پل ہماری سانسوں میں
وہ اپنا نام صدائے نفس میں ڈال گیا
وہ شخص بزم سخن میں اداس ہے دلبرؔ
ہمارا شعر اسے پیش و پس میں ڈال گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.