دل کے آئینے میں کچھ چہرے جو گوہر ٹھہرے
دل کے آئینے میں کچھ چہرے جو گوہر ٹھہرے
ان کو نزدیک سے دیکھا تو وہ پتھر ٹھہرے
آج کاذب بھی یہ چاہے ہے کہ فرمان اس کا
ساری دنیا پہ چلے قول پیمبر ٹھہرے
دل کا ویرانہ بھی ممکن ہے معطر ہو جائے
کون جانے کہ اک اک زخم گل تر ٹھہرے
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی طرف داری ہے
تم بھی موسیٰ بنو گر وقت ستم گر ٹھہرے
ان کے دامن پہ نظر آئے لہو کے چھینٹے
امن و انصاف کے جو لوگ پیمبر ٹھہرے
زیست کا راز کھلا ہے اسی دیوانے پر
رقص خنجر جسے محبوب کا پیکر ٹھہرے
اپنی بھی ذات کا عرفان نہیں ہے جن کو
عہد حاضر میں بشر کے وہی رہبر ٹھہرے
کی تھی ہموار کبھی جن کے لئے راہ حیات
اب وہی لوگ مری راہ کا پتھر ٹھہرے
کیسے آرام کا آ جائے خیال اے مہدیؔ
زندگی جب کسی بیمار کا بستر ٹھہرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.