دل کے جلتے ہوئے زخموں کا مداوا بن کر
دل کے جلتے ہوئے زخموں کا مداوا بن کر
پھول مہکے ہیں ترے ہاتھ کا سایہ بن کر
میں ترے جسم کو چھوتے ہوئے یوں ڈرتا ہوں
تشنگی اور بڑھا دے گا تو دریا بن کر
کیا ڈرائیں گے مقدر کے اندھیرے تجھ کو
میں چمکتا ہوں ترے ہاتھ پہ ریکھا بن کر
وقت ہے برف کی دیوار تو کیسے پگھلے
خوں بھی آنکھوں سے ٹپکتا نہیں شعلہ بن کر
ہاتھ آیا نہیں کچھ سنگ ملامت کے سوا
شہر میں دیکھ لیا ہم نے تماشا بن کر
حادثہ کوئی ہو بجھتی نہیں آنکھوں کی چمک
جسم میں پھیل گیا ہے وہ اجالا بن کر
آئنے صاف تھے کس کس کو وہاں جھٹلاتا
ہر سیاہی نظر آئی مرا چہرہ بن کر
تشنگی لاکھ سہی گھر سے نہ نکلو راشدؔ
رات سینے میں اتر جائے گی صحرا بن کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.