دل کے کعبے کو گرا دیتا ہے ڈرتا بھی نہیں
دل کے کعبے کو گرا دیتا ہے ڈرتا بھی نہیں
کون ہے حجاج بن یوسف جو مرتا بھی نہیں
یہ ستارہ آسماں کی اس تماشا گاہ میں
ڈوب جاتا ہے تو دوبارہ ابھرتا بھی نہیں
دھوپ کیسی ہے جو اس پانی میں گھلتی ہی نہیں
رنگ کیسا ہے جو شعروں سے اترتا بھی نہیں
شور ہوتا جا رہا ہے لہریں رکتی ہی نہیں
پیڑ اگتے جا رہے ہیں دشت بھرتا بھی نہیں
آنکھ ہے جو جذب کر لیتی ہے ہر منظر کہیں
یہ سمندر ہے کہ جو بھر کر بپھرتا بھی نہیں
یہ زمیں یہ چاند سیارے ہیں سب دریوزہ گر
اصل میں سورج کہیں نیچے اترتا بھی نہیں
اس میں بے رنگی کی آمیزش ضروری ہے بہت
رنگ اک ہو تو زیادہ دن ٹھہرتا بھی نہیں
رفتہ رفتہ ہم بنا لیتے ہیں وہ ایماں کا جز
جو تقاضا ہم سے خود ایمان کرتا بھی نہیں
موت سے کس کو مفر ہوتا ہے لیکن آدمی
بات یہ ہے اصل میں اک بار مرتا بھی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.