دل کھول کر ہنسیں نہ تو آنسو بہائیں لوگ
دل کھول کر ہنسیں نہ تو آنسو بہائیں لوگ
چیخوں کو پھر بتاؤ کہ کیسے دبائیں لوگ
رہنا پڑے گا ایسے ہی تا زندگی ہمیں
جو دن گزر گئے ہیں انہیں بھول جائیں لوگ
لاشوں کے اس ہجوم میں اک فکر یہ بھی ہے
کس کو اتاریں قبر میں کس کو جلائیں لوگ
پہلے تو دل سے دل کو ملانے کی بات تھی
اب حکم یہ ہوا ہے کہ دوری بنائیں لوگ
آثار زندگی ہی نہیں زندگی میں کچھ
جب دل ہی بجھ گیا ہو تو کیا مسکرائیں لوگ
بھولے سے بھی نہ بھولے گا سن دو ہزار بیس
جو دل پہ نقش ہو گیا کیسے مٹائیں لوگ
تم کو خدا نے دی ہے جو لفظوں کی سلطنت
ایسی غزل کہو کے جسے گنگنائیں لوگ
رکھتے نہیں ہو رشتہ کسی سے بھی تم مگر
امید یہ کہ تم سے ہی رشتہ نبھائیں لوگ
دولت سے بھی سکون میسر نہیں ہوا
نصرتؔ کا مشورہ ہے کہ نیکی کمائیں لوگ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.