دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
دل خوش نہ ہوا زلف پریشاں سے نکل کر
پچھتائے ہم اس شام غریباں سے نکل کر
یہ اس سے زیاں کار تو وہ اس سے بد آئیں
جاؤں میں کہاں گبر و مسلماں سے نکل کر
استاد کوئی زور ملا قیس کو شاید
لی راہ جو جنگل کی دبستاں سے نکل کر
معلوم نہیں مجھ کو کہ جاوے گا کدھر کو
یوں سینہ ترا چاک گریباں سے نکل کر
گزرا رگ گردن سے کہ جوں شمع سر اپنا
تلوار ہی کھاتا ہے گریباں سے نکل کر
نا زوری میں آیا نہ کبھو تا سر مژگاں
یک قطرۂ خوں بھی بن مژگاں سے نکل کر
تیروں میں کماندار مرا گھیر لے جس کو
وہ جانے نہ پاوے کبھی میداں سے نکل کر
ہم آپ فنا ہو گئے اے ہستئ موہوم
جوں موج تبسم لب جاناں سے نکل کر
صورت کے تری سامنے رہ جائے ہے کیسے
ہر بت کی نگہ دیدۂ حیراں سے نکل کر
اس دست حنائی میں رہا آئینہ اکثر
دریا نہ گیا پنجۂ مرجاں سے نکل کر
اب پڑھ وہ غزل مصحفیؔ تو شستہ و رفتہ
سننے جسے خلق آئے صفاہاں سے نکل کر
- کتاب : kulliyat-e-mas.hafii(shashum) (Pg. 141)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.