دل کی مایوس تمناؤں کو مر جانے دو
دل کی مایوس تمناؤں کو مر جانے دو
درد کو آخری منزل سے گزر جانے دو
میں نے کب ساغر و صہبا سے کیا ہے انکار
نشۂ بادۂ ہستی تو اتر جانے دو
جس کی اے اہل چمن کی ہے لہو سے تعمیر
اب وہ شیرازۂ گلشن نہ بکھر جانے دو
چار تنکوں کی بھی تعمیر ہے کوئی تعمیر
فصل گل آئے گی رکھ لیں گے بکھر جانے دو
لذت غم سے تڑپنے میں مزہ آتا ہے
لذت غم سے طبیعت مری بھر جانے دو
انقلاب آئے گا کوئی کہ بہار آئے گی
خال و خد چہرۂ گیتی کے نکھر جانے دو
ہم سے بدلے ہوئے تیور ہیں زمانے کے سفیرؔ
اس نے دیکھی ہے ہماری بھی نظر جانے دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.