دل کی ضرورت لب تک لانی پڑتی ہے
لفظوں سے کیوں بات بنانی پڑتی ہے
کبھی کبھی کہیں آگ بجھانے کی خاطر
نئی جگہ پر آگ لگانی پڑتی ہے
ظاہر کرنے کے لیے خفیہ دشمنوں کو
دوستوں میں افواہ اڑانی پڑتی ہے
پھل نہیں دیتی خاموشی خاموشی سے
اس کے لیے آواز اٹھانی پڑتی ہے
پہلے ہنسی خود آ جاتی تھی ہونٹوں تک
اب بہلا پھسلا کر لانی پڑتی ہے
سورج صاحب کنجوسی کرتے ہیں جہاں
وہاں پر اپنی دھوپ بنانی پڑتی ہے
اچھا سودا پہلے خود بک جاتا تھا
لیکن اب آواز لگانی پڑتی ہے
ویرانے میرے در پر آ بیٹھتے ہیں
جب بھی کم ان کی ویرانی پڑتی ہے
سوچتا ہے ہر روز بھلانے کا تجھ کو
روز ہی دل کو منہ کی کھانی پڑتی ہے
عشق میں خود کو مار کے یار کے کوچے میں
اپنی میت آپ اٹھانی پڑتی ہے
دشت نوردی عشق میں کھیل ہے بچوں کا
ہم کو اپنی گرد اڑانی پڑتی ہے
اندھے شہر کو متوجہ کرنے کے لیے
دشت میں جا کر دھوم مچانی پڑتی ہے
یہاں کسی کو کوئی مقام نہیں دیتا
اپنی جگہ ارمانؔ بنانی پڑتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.