دل کس سے مخاطب ہے کہ ویران بہت ہے
دل کس سے مخاطب ہے کہ ویران بہت ہے
شیدا ہے اسے دشت کا ارمان بہت ہے
گزرے تو گزر جائے نہ گزرے تو قیامت
دل وقت کی اس چال پہ حیران بہت ہے
اک عمر میں خود سے مری پہچان ہوئی ہے
جاتی ہوئی عمروں کو یہ پہچان بہت ہے
اس شہر میں رہتے ہیں بنا روح کے پیکر
اس شہر میں جی لینے کا امکان بہت ہے
دل ہاتھ سے جائے گا یہ جاں بھی نہ رہے گی
کر لیجے مگر عشق میں نقصان بہت ہے
شب ساری برستا ہے یہ چپ رہتا ہے دن بھر
کچھ روز سے موسم بھی پریشان بہت ہے
تو جا نہیں پائے گی اسے چھوڑ کے میراؔ
اس گھر میں ترے نام کا سامان بہت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.