دل کسی سمت کسی سمت قدم جاتا ہے
دل کسی سمت کسی سمت قدم جاتا ہے
تیرے موجود کے چکر میں عدم جاتا ہے
اور تو کچھ نہیں ہوتا ترے ملنے سے مگر
ایک طوفان تعلق ہے جو تھم جاتا ہے
مجھ کو ساون میں کبھی خط نہ روانہ کرنا
جاتے جاتے ترے مکتوب سے نم جاتا ہے
اس لیے بولا اسے خود سے پرے جانے کا
جس طرف ہم اسے کہتے ہیں وہ کم جاتا ہے
رقص دوشیزۂ دنیا پہ نظر پڑتے ہی
جام جمشید مرے ہاتھ میں جم جاتا ہے
کسی دل سے کسی پہلو سے کسی دنیا سے
آدمی جاتا ہے کب رنج و الم جاتا ہے
نغمۂ طول شب ہجر مرے بس کا نہیں
میں اگر لے کو پکڑتا ہوں تو سم جاتا ہے
ہاتھ اٹھا لوں تو تری خوشبو چلی جائے گی
سر جھٹک دوں تو ترا دست ستم جاتا ہے
بعض اوقات ہواؤں کے تعاقب کے لیے
میں نہ جاؤں تو مرا نقش قدم جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.