دل کو پیری میں محبت کا تری جوش آیا
دل کو پیری میں محبت کا تری جوش آیا
بے خودی شب کو رہی وقت سحر ہوش آیا
تیرے جلوے کا نظارہ نہ ہوا بار دگر
بے خودی کے ہیں یہ معنی کہ نہ پھر ہوش آیا
زہر گیسو نے مجھے مار ہی ڈالا تھا مگر
لب جاں بخش کے صدقہ میں مجھے ہوش آیا
ساقیا مے کدۂ دہر میں وہ مے کش ہوں
مرتے دم تک مجھے اپنا بھی نہ کچھ ہوش آیا
کس لئے جام و صراحی میں ہے ساقی تاخیر
ابر پر شور پئے خاطر مے نوش آیا
دل کو پھر لالہ رخوں سے ہوئی الفت پیدا
عہد پیری میں جوانی کا مجھے جوش آیا
اس قدر شوق شہادت ہے مجھے اے قاتل
تیرے کوچے میں جو آیا تو کفن پوش آیا
جو دہر دہر سے وہ بار گنہ لے کے گیا
گو جب آیا تھا عدم سے تو سبک دوش آیا
خلعتیں زیر زمیں کون پنہا دیتا ہے
باغ عالم میں جو گل آیا قبا پوش آیا
واعظا کر سر منبر نہ مذمت مے کی
کچھ بنائے نہ بنے گی جو یہاں جوش آیا
حشر کے دن جو گنہ گاروں کی کثرت دیکھی
قلزم رحمت باری میں عجب جوش آیا
جس نے مے خانہ دنیا میں ذرا بھی پی لی
آ گئی موت پہ طالبؔ نہ اسے ہوش آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.