دل کیا حریف ہو تری رنجش کے بیم کا
دل کیا حریف ہو تری رنجش کے بیم کا
طوفان ہے چراغ کو جھوکا نسیم کا
نظارگی کو نشہ ہے ذوق کلیم کا
جلوہ مگر بتوں میں ہے نور قدیم کا
وہ سادگی سے پرسش احوال اب کہاں
کھلنا ستم ہوا مرے حال سقیم کا
دنیا میں سوز عشق کو پایا سزائے عشق
دل ہو گیا کنار میں شعلہ جحیم کا
بیٹھا اٹھا رہا ہے مزے سیر چرخ کے
پایہ بلند ہے ترے در کے مقیم کا
منصور کو ملا تھا انا الحق سے اوج دار
برتر ہوا کلام سے رتبہ کلیم کا
یوں بے خبر حقیقت عالم سے رہ گیا
نشہ تھا جام جم میں دماغ حکیم کا
رطب اللساں ہے موج تو گوہر ہے تر وہاں
دریا محیط ہے ترے فیض عمیم کا
اس حور وش سے چشم تصور ہے جلوہ زار
نظارہ ہے خیال میں باغ نعیم کا
یوسف سے نور دیدۂ یعقوب تھا رواں
تھا پیرہن دکھانے کو پردہ شمیم کا
گر کر تمہارے کان سے بے آب ہے گہر
اترا ہے درد ہجر سے منہ اس یتیم کا
امید ہے کہ مورد انعام دوست ہوں
جویا ہوں میں وفا کی رہ مستقیم کا
بے یار بزم ہستیٔ عاشق ہے بے فروغ
دل شعلۂ فسردہ ہے شمع حریم کا
تمکین وضع و طرز تبسم میں دیکھیے
انداز اس کی شوخیٔ طبع سلیم کا
ایمان ہے ترے رخ روشن کو دیکھنا
پیش نظر ہے معجزہ ماہ دو نیم کا
ہر دم ہے قبض و بست ترے لطف و قہر سے
دل آئنہ ہے صورت امید و بیم کا
آداب کی جگہ ہے ذکیؔ بزم اتحاد
نازک ہے مثل شیشۂ مے دل ندیم کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.