دل کیا کسی کی بات سے اندر سے کٹ گیا
دل کیا کسی کی بات سے اندر سے کٹ گیا
تتلی کا رابطہ کیوں گل تر سے کٹ گیا
دو چار گام کا ہی سفر رہ گیا تھا بس
اس وقت میرا قافلہ رہبر سے کٹ گیا
موسم کے سرد و گرم کا جل پر اثر نہ تھا
وہ سنگ دل بھی شعر سخنور سے کٹ گیا
صف میں مخالفوں کی میں سمجھا تھا غیر ہیں
دیکھا جو اپنے لوگوں کو اندر سے کٹ گیا
خیرات خوب کرتا ہے جب لوگ ساتھ ہوں
تنہا ہے وہ ابھی تو گداگر سے کٹ گیا
جب تک عروج تھا تو زمانے میں دھوم تھی
جوں ہی زوال آیا وہ منظر سے کٹ گیا
- کتاب : Khushboo Ke Ta'aqub main (Pg. 51)
- Author : Dr. Arif Ansari
- مطبع : Faazli Urdu Society,Burhanpur (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.