دل نشیں ہے نقش تیری شوخیٔ تحریر کا
دل نشیں ہے نقش تیری شوخیٔ تحریر کا
مٹنا تو انجام ہے ہر پیکر تصویر کا
زور وحشت ہو گیا رسوا سر صحرائے شوق
ہنس رہا ہے مجھ پہ ہر حلقہ مری زنجیر کا
دیکھ کر مجھ کو مقابل دیکھ کر اپنا حریف
دیکھ لے وہ اڑ گیا پانی تری شمشیر کا
ہر شکن بستر کی ہے آئینہ دار کیفیت
رات بھر جھگڑا رہا تقدیر سے تدبیر کا
اپنی بربادی پہ خوش ہونے کا کچھ سامان کر
کوئی پہلو ڈھونڈ لے تخریب میں تعمیر کا
یاد آئے گا خدا اس کو مرے مرنے کے بعد
میں تو ایماں لے کے ڈوبوں گا بت بے پیر کا
شاعری طرز سخن میں خضرؔ کچھ آساں نہیں
شعر کہہ لینا بھی تو لانا ہے جوئے شیر کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.