دل پہ کچھ ایسے کسی یاد کے در کھلتے ہیں
دل پہ کچھ ایسے کسی یاد کے در کھلتے ہیں
جیسے صحراؤں کی وسعت میں سفر کھلتے ہیں
ہم سے ملتے ہیں سر دشت بگولے جھک کر
پاؤں دریاؤں میں رکھیں تو بھنور کھلتے ہیں
راہ گم کردہ ستاروں کے لیے آخر شب
ہم فقیران در عشق کے گھر کھلتے ہیں
کون سے لوگ ہیں جو پھرتے ہیں تعبیر لیے
کن دعاؤں کے لیے باب اثر کھلتے ہیں
آگ تخلیق کی جب روح کو لاوا کر دے
تب کہیں جا کے مری جان ہنر کھلتے ہیں
روز دستک سی کوئی دیتا ہے سینے پہ نبیلؔ
روز مجھ میں کسی آواز کے پر کھلتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.