دل سے دل ہی نہ ملے جب تو بنے بات ہی کیا
دل سے دل ہی نہ ملے جب تو بنے بات ہی کیا
اک نیا رنگ نہ ابھرے تو ملاقات ہی کیا
زندگی زندہ ہو رخشندہ و پایندہ بھی ہو
چند سانسوں سے ملی جان کی سوغات ہی کیا
اپنے اسلاف کے احسان بھلا کر ان کو
بعد از مرگ دیے بھی تو خطابات ہی کیا
کم سے کم دیجئے اک بار تو موقع ہم کو
پھول صحرا میں نہ کھل جائیں تو پھر بات ہی کیا
خون دل دے کے کیا ان کے چمن کو شاداب
پھر بھی کہتے ہیں ہمیں آپ کی اوقات ہی کیا
حرص کی آگ میں دلہن کو جلا دیتے ہیں
ایسے جلادوں کی اوقات ہی کیا ذات ہی کیا
اف یہ برسات کہ بہہ جائیں غریبوں کے مکاں
خون رلوائے جو برسات وہ برسات ہی کیا
قلب پر نقش نہ بن کر جو ابھر آئیں حبیبؔ
ایسے اشعار ہی کیا ایسے خیالات ہی کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.