دل سے اک آگ کی دیوار ابھرتی جائے
دل سے اک آگ کی دیوار ابھرتی جائے
زینہ زینہ شب تنہائی اترتی جائے
تم سے ملنے کا جو برسوں میں کبھی آئے خیال
ہر طرف فاصلوں کی ریت بکھرتی جائے
وقت کی چال کو ہم رو کے رہیں کمرے میں
اور ادھر رات اندھا دھند گزرتی جائے
تپتا صحرا ہے ہر اک شہر اور امید سکوں
ایک بدلی ہے جو اوپر سے گزرتی جائے
میں تو اوقات کے پھیلاؤ میں بڑھتا جاؤں
اور جو اک شے مرے اندر ہے وہ مرتی جائے
جانے کیا بھوت چھپے بیٹھے ہیں اس آنگن میں
رات جائے تو وہاں کانپتی ڈرتی جائے
وہ نظر پھول کھلاتی چلے پہلو پہلو
بن کے کانٹا سا دلوں میں بھی اترتی جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.