دل شگفتہ ہے کے پھر کوئی خطا ہونے کو ہے
دل شگفتہ ہے کے پھر کوئی خطا ہونے کو ہے
جیسے اگلے ہی قدم پر حادثہ ہونے کو ہے
جانے کیا کیا ہو گیا ہے ہو رہا ہے جانے کیا
آنے والے وقت میں اب جانے کیا ہونے کو ہے
وہ گیا تو لوٹ کر سانسیں نہ آئیں جسم میں
یوں لگا کہ زندگی سے فاصلہ ہونے کو ہے
ڈال دی کشتی بھنور میں بس اسی امید پر
ایک تنکے کا مجھے بھی آسرا ہونے کو ہے
جھک گیا ہے آسماں اڑنے لگی ہے یہ زمیں
لگ رہا ساون میں اب کے کچھ نیا ہونے کو ہے
جس نے میرے پاؤں کو زخمی کیا تھا ایک دن
راستے کا اب وہ پتھر دیوتا ہونے کو ہے
پھر سہانی وادیوں سے عشق نے دی ہے صدا
لگ رہا ہے رتجگوں کا سلسلہ ہونے کو ہے
زندگی کی الجھنیں کاغذ پے لکھی تھیں کبھی
آ رہی ہے یہ خبر وہ فلسفہ ہونے کو ہے
مل گیا وہ اک گہر جو اپنے من کی سیپ میں
ایسا لگتا ہے کہ خود سے رابطہ ہونے کو ہے
چھو لیا آکاش نے جھک کر زمیں کے جسم کو
مختصر سا ایک پل عہد وفا ہونے کو ہے
ہم تو ایسی فکر سے اب ہو چکے ہیں بے نیاز
ہونے دو جو صاحبہؔ اچھا برا ہونے کو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.