دل شکن صبح لگے شام دل آزار لگے
دل شکن صبح لگے شام دل آزار لگے
اب سفینہ مرا اس پار نہ اس پار لگے
بزم قاتل کی طرح حسن کی سرکار لگے
یوں چلے بات کی چلتی ہوئی تلوار لگے
بے سہارا ترے وعدوں کا محل ہے ورنہ
خوب صورت تو بہت ریت کی دیوار لگے
قوم کے درد سے اب ان کو سروکار نہیں
خون انساں کی نمائش ہو کہ بازار لگے
تھا برا وقت جب ان کا تو سنبھالا ہم نے
دن پھرے اب تو ہمیں ان کو گنہ گار لگے
سلسلہ شور سلاسل کا یہاں تک پہنچا
دل بھی دھڑکے ہے تو زنجیر کی جھنکار لگے
اب کے یہ موج بلا دیکھیے لے جائے کہاں
اس کے پہلے تو کنارے سے کئی بار لگے
پی کے ہر دم جو رہے مست وہی مے کش ہے
رند وہ کیا ہے جو موسم کا گنہ گار لگے
یوں بھی ہوتا ہے علاج غم انساں کہ عزیزؔ
نام کا نام ہو بیمار کا بیمار لگے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.