دل سکھا لے گا اگر جور و جفا یاد نہیں
دل سکھا لے گا اگر جور و جفا یاد نہیں
ہم بنا لیں گے اگر تم ستم ایجاد نہیں
نالہ کل کا سا نہیں کل کی سی فریاد نہیں
بلبل باغ کو پھر آج سبق یاد نہیں
کیا کہوں نزع میں کیوں شکوۂ بیداد نہیں
دم پہ یوں آ کے بنی فرصت فریاد نہیں
یاس اے شوق اسیری چمن آباد نہیں
پر نکلتے ہیں یہاں اور کہیں صیاد نہیں
کیوں دم حشر بھی دل شاکیٔ بیداد نہیں
کچھ تری چال تو اے غیرت شمشاد نہیں
وہی نالے تو ہیں تازہ کوئی فریاد نہیں
اٹھ کھڑا ہو بھی فلک کچھ نئی افتاد نہیں
سلسلہ ٹوٹنا اچھا دل ناشاد نہیں
دم جگہ سے نہ اٹھے جس میں کہ فریاد نہیں
لوگ کہنے کو تجھے رشک پری کہتے ہیں
آدمیت تو یہ ہی ہے کہ پری زاد نہیں
سیکڑوں کو نگۂ ناز نے گردن مارا
میں نہ مانوں گا کہ آنکھیں تری جلاد نہیں
بے اثر اشک سے اچھا ہے جو آنکھیں پھوٹیں
نا خلف سے تو یہ بہتر ہے کہ اولاد نہیں
اپنے پر اپنی ہی منقار سے نوچے میں نے
کیا کروں تاب فراموشیٔ صیاد نہیں
دل خراشی سے ہے کیا کوہ کنی کو نسبت
ناخن غم سے فزوں تیشۂ فرہاد نہیں
بے خودی میں نہ کھلا کچھ کہ خدائی کیا ہے
دیکھ کر بت کو یہ بھولے کہ خدا یاد نہیں
قتل کا حکم تو آنکھوں کے اشاروں میں ہوا
کہئے کچھ اور تو حق میں مرے ارشاد نہیں
دل نہیں مفت ملے کیسے دہن کا بوسہ
گھر میں کچھ مال نہیں غیر سے امداد نہیں
کیا اسیران قفس رات کو چپکے سوئے
آج کچھ شکوۂ بے خوابیٔ صیاد نہیں
دور سے آتی ہیں فرمائشیں کیوں بہر سخن
شعلہؔ غالبؔ نہیں کچھ ذوقؔ سا استاد نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.