دل اس بے وفا سے ملا چاہتا ہے
دل اس بے وفا سے ملا چاہتا ہے
مجھے بھی یہ رسوا کیا چاہتا ہے
وہ دزد حنا خوں بہا چاہتا ہے
ہمارا بھی اب خوں بہا چاہتا ہے
تماشا کر اے گل مرے داغ دل کا
اگر سیر گلشن کیا چاہتا ہے
یہ سرگوشیاں کب ہیں علت سے خالی
عدو کان میں کچھ بھرا چاہتا ہے
خدائی میں کیا دخل ہے ان بتوں کو
جو کچھ چاہتا ہے خدا چاہتا ہے
لگا کر لہو اپنے دامن میں گل بھی
شہیدوں میں تیرے ملا چاہتا ہے
عیادت کو آتا ہے بالیں پہ میرے
وہ قاتل مسیحا بنا چاہتا ہے
تہیہ کیا کارواں نے عدم کا
جرس کوئی دم میں بجا چاہتا ہے
ذرا گوش دل سے سنو حال اس کا
فداؔ آپ سے کچھ کہا چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.