دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتا
دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتا
کام اس سے پڑا جس کو چھوڑا بھی نہیں جاتا
دن رات تڑپتا ہوں اب جس کی جدائی میں
وہ سامنے آئے تو دیکھا بھی نہیں جاتا
منزل پہ پہنچنے کی امید بندھے کیسے
پاؤں بھی نہیں اٹھتے رستہ بھی نہیں جاتا
یہ کون سی بستی ہے یہ کون سا موسم ہے
سوچا بھی نہیں جاتا بولا بھی نہیں جاتا
انگاروں کی منزل میں زنجیر بپا ہیں ہم
ٹھہرا بھی نہیں جاتا بھاگا بھی نہیں جاتا
اس مرتبہ چھائی ہے کچھ ایسی گھٹا جس سے
کھلنا بھی نہیں ہوتا برسا بھی نہیں جاتا
ہر حال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہم
دلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا
مر جاتے تھے غیروں کے کانٹا بھی جو چبھتا تھا
خود قتل ہوئے لیکن رویا بھی نہیں جاتا
کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرتؔ
اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا
- کتاب : shab-e-aaina (Pg. 237)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.