دل زباں ذہن مرے آج سنورنا چاہیں
دل زباں ذہن مرے آج سنورنا چاہیں
سب کے سب صرف تری بات ہی کرنا چاہیں
داغ ہیں ہم ترے دامن کے سو ضدی بھی ہیں
ہم کوئی رنگ نہیں ہیں کہ اترنا چاہیں
آرزو ہے ہمیں صحرا کی سو ہیں بھی سیراب
خشک ہو جائیں ہم اک پل میں جو جھرنا چاہیں
یہ بدن ہے ترا یہ عام سا رستہ تو نہیں
اس کے ہر موڑ پہ ہم صدیوں ٹھہرنا چاہیں
یہ سحر ہے تو بھلا چاہیئے کس کو یہ کہ ہم
شب کی دیوار سے سر پھوڑ کے مرنا چاہیں
جیسے سوئے ہوئے پانی میں اترتا ہے سانپ
ہم بھی چپ چاپ ترے دل میں اترنا چاہیں
عام سے شخص کے لگتے ہیں یوں تو تیرے پاؤں
سارے دریا ہی جنہیں چھو کے گزرنا چاہیں
چاہتے ہیں کہ کبھی ذکر ہمارا وہ کریں
ہم بھی بہتے ہوئے پانی پہ ٹھہرنا چاہیں
نام آیا ہے ترا جب سے گنہ گاروں میں
سب گواہ اپنی گواہی سے مکرنا چاہیں
وصل اور ہجر کے دریا میں وہی اتریں جو
اس طرف ڈوب کے اس اور ابھرنا چاہیں
کوئی آئے گا نہیں ٹکڑے ہمارے چننے
ہم اسی جسم کے اندر ہی بکھرنا چاہیں
- کتاب : Chand Dinner per Baitha Hai (Pg. 19)
- Author : Swapnil Tiwari
- مطبع : Anybook, Gurgaon (2015)
- اشاعت : 2015
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.