دلبر نہیں حبیب نہیں پاسباں نہیں
دلبر نہیں حبیب نہیں پاسباں نہیں
میں وہ زمیں ہوں جس کا کوئی آسماں نہیں
جو درد دے نہ جائے وہ آہ و فغاں نہیں
جو لے نہ جائے نامہ وہ نامہ رساں نہیں
مدت سے ہوں پڑا ہوا ترکش کی قید میں
میں تیر ہوں مرے لئے کوئی کماں نہیں
اس کی سمجھ میں آ گئے حالات کے نقوش
وہ بد گماں تو تھا مگر اب بد گماں نہیں
وہ مسکرا کے چڑھ گیا نیزے کی نوک پر
وہ شادماں تھا پھر بھی ستم شادماں نہیں
اس درجہ ہے لحاظ کہ کھلتی زباں نہیں
ہم کیا بتائیں درد کہاں ہے کہاں نہیں
بوسہ بھی دوں تو کس پہ دوں اے جان جاں بتا
صحرا میں تیرے پاؤں کا کوئی نشاں نہیں
لب تیرے پنکھڑی ترے رخسار ہیں گلاب
ہم سمجھے اس زمیں پہ کوئی گلستاں نہیں
میں تیرے سامنے ہوں تو ہے میرے سامنے
اب تو کوئی لکیر یہاں درمیاں نہیں
کہنا ہو جب شراب اسے تو کہے سراب
اب میکدے کا ساقی بھی اہل زباں نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.