دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
دلچسپ معلومات
(اپریل 1972)
دلوں میں حبس کا عالم پرانی عادتوں سے ہے
لبوں پر تلخیوں کا زہر بگڑے ذائقوں سے ہے
جو اجڑا شہر خوابوں کا تو اپنی بھی اڑی ہے گرد
کسی سوکھے ہوئے دریا کی صورت مدتوں سے ہے
یہ کالی رات کا دریا بہا کر لے گیا سورج
ہراساں صبح کے ساحل پہ دل تاریکیوں سے ہے
مہکتے پھول بھی ڈسنے لگے ہیں سانپ کی صورت
فضا باغوں کے اندر بھی دلوں کے موسموں سے ہے
انہیں لمحوں کی آہٹ سے ملیں بیداریاں مجھ کو
مرے دریا کی جولانی سمے کے پانیوں سے ہے
وہ آنچ آنے لگی خود سے کہ دل ڈرنے لگا اپنا
جہنم روح کا بھڑکا ہوا خاموشیوں سے ہے
کھلیں آنکھیں تو سب کچھ نور میں ڈوبا ہوا پایا
مرے سورج کی تابانی نظر کے شعبدوں سے ہے
ندیمؔ اس راہ میں صدیوں کی دیواریں بھی حائل ہیں
نئی دنیا ابھی تک اوٹ میں ان ظلمتوں سے ہے
- کتاب : Shola-e-Khushboo (Pg. 109)
- Author : Salahuddin Nadeem
- مطبع : Raheel Salahuddin (1984)
- اشاعت : 1984
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.