دن بھر دشت نوردی کر کے خود پہ رقت طاری کی
ہم نے اپنے دشمن سے بھی جان سے بڑھ کر یاری کی
اس نے اپنے پاس بٹھا کر اسم خاص کا ورد کیا
رمز مجھے معلوم نہ تھی اس تاریکی بیداری کی
ملتی کب ہے آسانی سے در در جانا پڑتا ہے
سانبھ کے میں نے رکھ لی ہے یہ سب دولت خودداری کی
دن بھر ایک فقیر نے تیرے وصل کی خاطر رقص کیا
شب بھر تیرے دیوانے نے ہجر میں گریہ زاری کی
غم کے مسافر خانے سے ہو کر بے زار زمانے سے
درویشوں نے دشت میں جا کر رہنے کی تیاری کی
سینے سے لگتے ہی غم کا بوجھ اترنے لگتا تھا
تھی موجود زمانے میں اک رسم کہ پرسہ داری کی
سب دیوانے دیکھ کے مجھ کو حیرت سے دو چار ہوئے
سر پہ جب دستار سجائی وحشت کی سرداری کی
جگہ جگہ پہ اشک فشانی سارے کاغذ گیلے ہیں
باتیں بالکل سچ لگتی ہیں اک مجبور لکهاری کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.