دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
دن ڈھلا شام ہوئی پھول کہیں لہرائے
سانپ یادوں کے مہکتے ہوئے ڈسنے آئے
وہ کڑی دھوپ کے دن وہ تپش راہ وفا
وہ سواد شب گیسو کے گھنیرے سائے
دولت طبع سخن گو ہے امانت اس کی
جب تری چشم سخن ساز طلب فرمائے
جستجوئے غم دوراں کو خرد نکلی تھی
کہ جنوں نے غم جاناں کے خزینے پائے
سب مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے ہیں
ان کا ایما بھی ہو شامل تو مزہ آ جائے
کیا کہوں دل نے کہاں سینت کے رکھا ہے اسے
نہ کبھی بھولنے پاؤں نہ مجھے یاد آئے
میں نے حافظ کی طرح طے یہ کیا ہے عابدؔ
بعد ازیں مے نہ خورم بے کف بزم آرائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.