دن ہوا کٹ کر گرا میں روشنی کی دھار سے
دن ہوا کٹ کر گرا میں روشنی کی دھار سے
خلق نے دیکھے لہو میں رات کے انوار سے
اڑ گیا کالا کبوتر مڑ گئی خوابوں کی رو
سایۂ دیوار نے کیا کہہ دیا دیوار سے
جب سے دل اندھا ہوا آنکھیں کھلی رکھتا ہوں میں
اس پہ مرتا بھی ہوں غافل بھی نہیں گھر بار سے
خاک پر اڑتی بکھرتی پرزہ پرزہ آرزو
یاد ہے یہ کچھ ہوا کی آخری یلغار سے
اب تو بارش ہو ہی جانی چاہئے اس نے کہا
تاکہ بوجھ اترے پرانی گرد کا اشجار سے
عشق تو اب شعر کہنے کا بہانہ رہ گیا
حرف کو رکھتا ہوں روشن شعلۂ افکار سے
شہر کے نقشے سے میں مٹ بھی چکا کب کا ظفرؔ
چار سو لیکن چمکتے ہیں مرے آثار سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.