دن میں بھی حسرت مہتاب لیے پھرتے ہیں
دن میں بھی حسرت مہتاب لیے پھرتے ہیں
ہائے کیا لوگ ہیں کیا خواب لیے پھرتے ہیں
ہم کہاں منظر شاداب لیے پھرتے ہیں
در بہ در دیدۂ خوں ناب لیے پھرتے ہیں
وہ قیامت سے تو پہلے نہیں ملنے والا
کس لیے پھر دل بے تاب لیے پھرتے ہیں
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
سلطنت ہاتھ سے جاتی رہی لیکن ہم لوگ
چند بخشے ہوئے القاب لیے پھرتے ہیں
ایک دن ہونا ہے مٹی کا نوالہ پھر بھی
جسم پر اطلس و کمخواب لیے پھرتے ہیں
ہم نوائی کہاں حاصل ہے کسی کی مجھ کو
ہم نواؤں کو تو احباب لیے پھرتے ہیں
کس لیے لوگ ہمیں سر پہ بٹھائیں گے فراغ
ہم کہاں کے پر سرخاب لیے پھرتے ہیں
- کتاب : Ghazal Ke Rang (Pg. 256)
- Author : Akram Naqqash, Sohil Akhtar
- مطبع : Aflaak Publications, Gulbarga (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.