دن سے بچھڑی ہوئی بارات لیے پھرتی ہے
دن سے بچھڑی ہوئی بارات لیے پھرتی ہے
چاند تاروں کو کہاں رات لیے پھرتی ہے
یہ کہیں اس کے مظالم کا مداوا ہی نہ ہو
یہ جو پتوں کو ہوا ساتھ لیے پھرتی ہے
چلتے چلتے ہی سہی بات تو کر لی جائے
ہم کو دنیا میں یہی بات لیے پھرتی ہے
لمحہ لمحہ تری فرقت میں پگھلتی ہوئی عمر
گرمی شوق ملاقات لیے پھرتی ہے
ورنہ ہم شہر گل آزار میں کب آتے تھے
یہ تو ہم کو بھری برسات لیے پھرتی ہے
جس طرف سے میں گزرتا بھی نہیں تھا پہلے
اب وہیں گردش حالات لیے پھرتی ہے
- کتاب : Beesveen Sadi Ki Behtareen Ishqiya Ghazlen (Pg. 26)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.