دنوں کی ہفتے میں تعداد سات ٹھہری ہے
دنوں کی ہفتے میں تعداد سات ٹھہری ہے
اسی مدار میں کل کائنات ٹھہری ہے
تھرک رہے ہیں مرے لب مخاطبت میں تبھی
زباں کی نوک پہ کچھ ایسی بات ٹھہری ہے
گھٹا مچلتی ہے بادل کی اس کے آنچل پر
دراز گیسوؤں میں اس کے رات ٹھہری ہے
بہار نام ہوا تیرا پیراہن کھلنا
ترے بدن کی خزاں رت زکوٰۃ ٹھہری ہے
تمہارے گال سے سرخی چرائی وقت سحر
نظر کٹار کی جیسے نشاط ٹھہری ہے
یہ آٹا گوندھتے ہاتھوں کے لمس کی سوگند
تری کلائی کے صدقے پرات ٹھہری ہے
ترے حضور مرے سانس سہل ہیں مجھ پر
بدن میں دید سے تیری حیات ٹھہری ہے
یہ رکھ رکھاؤ ترا نازکی بھرا لہجہ
ترے بیان پہ ساری ثقات ٹھہری ہے
کسی کی بات پہ ٹھہراؤ کب ہوا اپنا
تمہاری بات پہ آئے تو بات ٹھہری ہے
طرح طرح کی شباہت بیاں ہوئی علویؔ
یہ رات دن نہ ہوئی پھر بھی رات ٹھہری ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.