دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
دیا جب جام مے ساقی نے بھر کے
تو پچھتائے بہت ہم توبہ کر کے
لپٹ جاؤ گلے سے وقت آخر
کہ پھر جیتا نہیں ہے کوئی مر کے
وہاں سے آ کے اس کی بھی پھری آنکھ
وہ تیور ہی نہیں اب نامہ بر کے
کوئی جب پوچھتا ہے حال دل کا
تو رو دیتے ہیں ہم اک آہ بھر کے
گلوں کے عشق میں دے جان بلبل
ارے یہ حوصلے ایک مشت پر کے
خدا محفوظ رکھے ان کی ضد سے
جو کہتے ہیں دکھا دیتے ہیں کر کے
رہیں گے خاک میں ہم کو ملا کر
ترے انداز اس نیچی نظر کے
دماغ اپنا نہ کیوں کر عرش پر ہو
یہ سمجھو تو گدا ہیں کس کے در کے
ہوئی ہے قید سے بدتر رہائی
کیا آزاد اس نے پر کتر کے
اٹھے جاتے ہیں لو دنیا سے ہم آج
مٹے جاتے ہیں جھگڑے عمر بھر کے
حفیظؔ اب نالہ و فریاد چھوڑو
کوئی دن یوں بھی دیکھو صبر کر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.