دیے بھی ہوں تو پجاری سورج کے سانس کیا لیں گے تیرگی میں
دیے بھی ہوں تو پجاری سورج کے سانس کیا لیں گے تیرگی میں
کہو پتنگوں سے رقص کر لیں چراغ کی دھیمی روشنی میں
معاف اے ناز رہنمائی پہنچ کے منزل پہ بھی نہ پائی
وہ لذت خواب جو میسر ہوئی سر راہ خستگی میں
وفا کو تھوڑی سی بے نیازی کم التفاتی نے تیری دے دی
اب اور کیا چاہئے خودی کو تری محبت کی بے خودی میں
چھپی نہ جب خاک آستاں سے چھپے گی کیا چشم نکتہ داں سے
وہ اک شکن جو ذرا سی ابھری جبین مجبور بندگی سے
ادھر اندھیرے کی لعنتیں ہیں ادھر اجالے کی زحمتیں ہیں
ترے مسافر لگائیں بستر کہاں پہ صحرائے زندگی میں
جمیلؔ ہم اٹھ کے گر پڑے اور گزر گیا کارواں ہمارا
غبار کی بات تک نہ پوچھی مسافروں نے روا روی میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.