دئے جلا کے ہواؤں کے منہ پہ مار آیا
دئے جلا کے ہواؤں کے منہ پہ مار آیا
کوئی تو ہے جو اندھیروں کا قرض اتار آیا
خدا سے جب بھی کڑی دھوپ کی شکایت کی
تو میری راہ میں ایک پیڑ سایہ دار آیا
کہاں ہوئی کبھی اس سے ہماری دید و شنید
ہوا کے رتھ پہ ہمیشہ ہی وہ سوار آیا
سکون بانٹتی پھرتی ہوں میں زمانے میں
نہ جانے کیوں مرے حصے میں انتشار آیا
ہزار بار مرا درد مسکرائے گا
ہزار بار اگر موسم بہار آیا
سبب میں ڈھونڈ رہی تھی مری اداسی کا
ترا خیال مجھے آج بار بار آیا
کیا ہے اس نے ہی غارت مرا سکون مگر
اسی کے نام پہ رخشاںؔ مجھے قرار آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.